کراچی کے معاملات کو سمجھنے کے لئے فقط عصر حاضرکے واقعات کو مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھنا انتہائی نا انصافی ہوگی۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے کراچی کے تینوں سیاسی اسٹیک ہولڈرز یعنی پی پی پی، ایم کئو ایم اور اے این پی کی تاریخ، موجودہ حکومت کے قیام کے عوامل بشمول این-آر-او، اے این پی کا پٹھان، اسکا ٹرانسپورٹ کا بزنس اورغیر ملکی اسلحہ تک رسائی، اس حکومت میں وزارتوں کی تبدیلیوں کے باوجود وزارت ریلوے کا اے این پی کے پاس ہی رہنا اور ملک کے مواصلاتی نظام کا کنٹرول اور ریلوے جیسے ادارے کی تباہی کے تمام ممکنہ عوامل بسمیت افغانستان کے رستے آنے والے اسلحے کی کراچی میں تین سالہ سپلائی جیسے عوامل کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔
میں بات کو مختصر کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ یہ ضرور سوچا جائے کہ الطاف حسین صاحب اپنے ہی دیس میں کیونکر آ نہیں سکتے، اور یہ بھی سوچا جائے کہ زرداری صاحب جب کبھی وہ تخت سلطانی پر براجمان نہیں رہیں گےیعنی انکے تمام مقدمات کھل جائیں گے جو این آر او نے بند کر دیے تھے، انکو سوس بنکوں میں رکھی رقم بھی وطن واپس لانی پڑے گی اور سرے محل اور کیا کیا، اور اگر آپ میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو زرداری صاحب کی جگہ پر رکھ کرمستقبل کا لائحہ عمل سوچے، تو حضرت ڈارون کے قانون ارتقا کواچھی طرح سمجھنے والے زرداری صاحب الطاف حسین صاحب سے مل کر کراچی اور سندھ کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں، یہ سب سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا۔ آج کراچی کے جو حالات بنائے جا رہے ہیں اس میں کراچی کو اس حال میں لے آنا کہ مشرقی پاکستان کی طرح بالآخر فوج کوتابوت میں آخری کیلیں ٹھونکنے کیلیئے بلانا پڑے یا فوج کے بادل نخواستہ آنے کے حالات پیدا کر دئے جائیں، یہ سب ترتیبی عوامل نظر آتے ہیں اس سازش کا جو کراچی کے سندھی اور محاجر کا نعرہ لگانے وانےجوعنقریب ایک کھلواڑ کرنے جا رہے ہیں اس ملک کے ساتھ، نے بنی ہے، اور ان کہ پشت پناہی حاصل ہے عالمی طاقتوں کی جن کے علاقائی مقاصد اس خطے کے ساتھ آج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ سندھ ملک سے علیحدہ ہوتا ہے تو بلوچستان کیسے ساتھ رہ سکے گا جس کی علیحدگی کی ہنڈیا کے نیچے ہر ڈکٹیٹر نے ہمیشہ ہی آنچ سلگائے رکھی ہے۔
مغرب کا یہ جمہوری نظام جس میں بندے گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، پاکستان سمیت پوری دنیا میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر انتہائی ممکن نقصان برداشت کر کے نظام بدلنے کا سوچا جائے، اس پر اہل دانش کو پہلے سے ہی سوچ بچار کرنی چاہیے تاکہ حالات کو قابو میں رکھ کر کم سے کم نقصان سے نظام، ملک اور انسانیت کی بہتری کیلئے مناسب تریں اقدامات کیئے جا سکیں۔ اور یاد رکھیں، پاکستان کا نظریہ اپنا کر ہی پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے، وہ نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان کے پودے کی آبیاری ہوئ جسے ہم بھولتے جا رہے ہیں اور اس پودے کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ جب تک اس نظریہ کو ہم اپنا نہیں لیں گے ہماری دنیا و آخرت دونوں میں بہتری کے اسباب پیدا نہیں ہو سکیں گے-
مغرب کا یہ جمہوری نظام جس میں بندے گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، پاکستان سمیت پوری دنیا میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر انتہائی ممکن نقصان برداشت کر کے نظام بدلنے کا سوچا جائے، اس پر اہل دانش کو پہلے سے ہی سوچ بچار کرنی چاہیے تاکہ حالات کو قابو میں رکھ کر کم سے کم نقصان سے نظام، ملک اور انسانیت کی بہتری کیلئے مناسب تریں اقدامات کیئے جا سکیں۔ اور یاد رکھیں، پاکستان کا نظریہ اپنا کر ہی پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے، وہ نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان کے پودے کی آبیاری ہوئ جسے ہم بھولتے جا رہے ہیں اور اس پودے کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ جب تک اس نظریہ کو ہم اپنا نہیں لیں گے ہماری دنیا و آخرت دونوں میں بہتری کے اسباب پیدا نہیں ہو سکیں گے-